تحریر: رمضان علی نیانی سانگلی مہاراشٹرا
حوزہ نیوز ایجنسی| امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے تئیں حساسیت کا فقدان معاشرہ کو مفلوج بنا دیتا ہے، ایسی صورتحال میں برائیاں ہماری آنکھوں میں کھٹکتی نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر ہم جھوٹ نہیں بولتے لیکن جھوٹ بولنے والوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ ہم ظالم نہیں ہیں لیکن کسی ظلم کی مخالفت بھی نہیں کرتے۔ ہم برائیوں کو پسند نہیں کرتے لیکن برائیوں کو روکنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ ظلم ہوتا ہوا دیکھتے ہیں لیکن ظالم کو روکنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کی انسانیت بیمار ہے تو کسی کی بالکل مردہ ہو چکی ہے۔ ایسے میں برائیوں کو روکنا اور اچھی باتوں کی ترغیب دلانا ضروری ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کون سی باتیں اچھی ہیں اسکا فیصلہ کون کرے گا؟!
اس سوال کے جواب میں کچھ سوالات ہیں، جیسے کہ نرسری،کے جیمیں پڑھنے والے 'بچے' سچ کیوں بولتے ہیں؟ بھوکے کو کھانا کھلانے میں خوشی کیوں محسوس ہوتی ہے؟ پہلی بار برا کام کرنے میں خوف اور گھبراہٹ کیوں محسوس ہوتی ہے؟ ان سوالوں کے جوابات انسانی تخلیق میں نہفتہ ہیں۔ خدا نے قانون فطرت کے مطابق، انسان کو خوبیوں سے آراستہ کیا ہے یہی وجہ ہے کہ انسان نیکیوں سے مانوس ہوتا ہے جبکہ برائیاں اس کے لئے غیر مانوس ہوتی ہیں۔ اسی لئے 'بچے' جھوٹ نہیں بولتے، بھوکے کو کھانا کھلانے میں خوشی محسوس ہوتی ہے اور پہلی بار برا کام کرنے میں گھبراہٹ محسوس ہوتی ہے ۔ خلاصہ یہ کہ پروردگار عالم نے فطرت کے تقاضے کے مطابق اپنی پسند یعنی اچھائیوں کی طرف رغبت پیدائشی طور پر انسان کو ودیعت فرمائی ہے، فطرت کے تقاضے کو پورا کرکے یعنی اچھائیوں کو اپنا کر آدمی، انسانیت کی منزل میں داخل ہوتا ہے، انسانیت ربّ کا انتخاب ہےاور یہ تمام مذاہب کا لازمہ بھی ہے یعنی انسانیت کے بغیر کوئی بھی مذہب ادھورا اور ناقص ہے۔ اب اگر کسی مذہبی شخص میں 'انسانیت' نہیں ہے تو وہ مذہبی نہیں، بلکہ بہروپیا ہے۔ ایسا شخص لوگوں کو بے حس بنا دیتا ہے اور جب معاشرہ میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے متعلق حساسیت ختم ہوجاتی ہے تو نتیجہ میں انسانیت کمزور ہو جاتی ہے بلکہ مردہ بھی ہو جاتی ہے۔ ہر شخص معاشرہ کے تئیں ذمہ دار ہے۔ 'جھوٹ' تمام برائیوں کو جنم دیتا ہےلہذا برائیاں پنپنے لگتی ہیں اور ناانصافی بڑھ جاتی ہے۔ ناانصافی کی بدترین اور ہولناک شکل انصاف کا دکھاوا ہے۔
جس طرح کے حالات آج جگہ جگہ ہیں ایسے ہی حالات کم و بیش 1343 سال پہلے (680ء) میں جزیرة العرب کے تھے۔ عرب سلطنت کا حکمراں جس کی حکومت کا دائرہ یورپ (روم) سے لے کر چین اور روس سے افریقہ تک نصف عالم سے زیادہ پر محیط تھا، جسکا نام یزید تھا ،وہ ایک ظالم و جابر حکمران تھا۔ 'جھوٹ' کی بنیاد پر اس نے خود کو مسلمانوں کا نام نہاد خلیفہ قرار دیا ہوا تھا،اس کی ظالمانہ حکومت کے خلاف عوامی حلقوں میں بے چینی بھی تھی لیکن یزید کے خوف اور پیسے کی لالچ میں آکر اکثر لوگوں نے اسے خلیفہ تسلیم کر لیا، کچھ لوگوں نے خاموشی میں بہتری سمجھی ، وہ یزید کے خوف سے روپوش ہوگئے لیکن حسین ؑنے نہ صرف خلیفہ کو تسلیم نہیں کیا بلکہ صاف الفاظ میں انکار کیا اور یزیدی حکومت کی مخالفت جاری رکھی۔ یزید کے دور حکومت کے مذہبی سماجی اور سیاسی نظام کے بارے میں اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ انسانی قدریں پائمال ہو رہی تھیں، معروف یعنی نیک کامترک کئے جارہے تھے اور منکرات کو رواج مل رہا تھا ، مالداروں کو جینے کا حق تھا، ان کے لئے کوئی قانون نہیں تھا جبکہ کمزوروں اور غریبوں کی چیخیں اپنے وجود کی بقاء کے لئے بلند ہورہی تھیں؛ جنہیں خاموش کرادیا جاتا تھا۔
یزید کے زیر حکومت مسلمان، عیسائی، یہودی اور دوسرے فرقوں کے لوگ زندگی بسر کرتے تھے لیکن ان میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ مسلمان نماز،روزہ اور حج وغیرہ جیسی عبادتیں انجام دیا کرتے تھے اسی طرح دیگر اقلیتیں بھی اپنی عبادت گاہوں میں عبادتیں کیا کرتی تھیں لیکن جھوٹ،ناانصافی، اور برائیاں اُن کی آنکھوں میں کھٹکتی نہیں تھیں۔ سب کے سب بے حس ہو گئے تھے کیونکہ مذہب صرف رسم و رواج تک محدود تھا۔ یزید جھوٹا، بدکردار اور منافق انسان تھا۔ یزید کی پالیسیوں کی وجہ سے عوام میں برائیاں عام ہو چکی تھیں، تمام فرقوں کے لوگ بے حس ہو چکے تھے، انسانیت دم توڑ چکی تھی۔ ایسے خوفناک حالات میں یزیدی حکومت کی مخالفت کرنا سب کی ذمہ داری تھی لیکن یزید کے خوف اور پیسے کی لالچ میں آکر لوگ اپنی ذمہ داری سے فرار کرنے لگے تھے البتہ حسینؑ نے یہ خطیر ذمہ داری قبول کی اور اپنے۷۲ ساتھیوں کے ساتھ کربلا آگئے۔ مسلمانوں پر مسلط حکمراں یزید کی مذہبی، سماجی اور سیاسی پالیسیوں کے خلاف احتجاج میں، حسینؑ نے امربالمعروف و نہی عن المنکر کی تحریک کا آغاز کرکے خود کو فرقہ پرستی سے جدا اور ما وراء ثابت کیا کیونکہ یزید کی سلطنت میں یہودی، عیسائی اور دیگر اقلیتی برادری کے لوگ بھی شامل تھے۔
پروپیگنڈا (میڈیا) یزید کے ساتھ تھا، قصیدے اسی کے پڑھے جا رہے تھے، فوج اور دیگر حکومتی ادارےاس کے اختیار میں تھے، باوجود اس کے یزید حسینؑ کے مزاج اور حسین ؑ کی فکر کو بدل نہ سکا۔ حسین ؑنے صبر و شجاعت کے ساتھ اپنی تحریک جاری رکھی۔ انسانی اقدار کے تحفظ کے لئے حسین ؑنے ایسے ساتھی چنے جن کے کردار پر کوئی داغ نہیں تھا، نہ ہی کسی یزیدی سپاہی نے ان سے کہا کہ ہم نے تم میں سے کسی کو کوئی برائی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
ایسے کردار کے حامل ۷۲ اصحاب میں سے ۱۸ افراد حسین ؑکے خاندان سے تھے یزید نے آ ب و دانہ کے تمام راستے ان پر بند کر دئیے۔ تین دن تک بھوکے پیاسے رہنے کے باوجود حسینؑ اور ان کے ساتھیوں اور حسینؑ کے خاندان کے چھوٹے بچوں نے صبر کا دامن اپنے ہاتھ سے چھوٹنے نہ دیا ۔ آخر میں حسینؑ نے یزیدی فوج سے اپیل کی کہ وہ جھوٹ، ناانصافی اور برائیوں سے نجات پانے کے لئے یزید کی مخالفت کرتے ہوئے ان کے ساتھ آجائیں لیکن حسینؑکی بات نہ مانی گئی اور انہیں قتل کردیا گیا، حسینؑ کی شہادت کا اثر دنیا بھر میں پھیل گیا، لوگوں کا شعور جاگ اٹھا ،ظالم سے لوگوں کا ڈر ختم ہوتا رہا، ناانصافیوں اور برائیوں کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگیں ، آزادی کو ایک نئی شناخت ملی اور دنیا میں انقلاب برپا ہونے لگے۔ یزیدی حکومت کی ریاستیں کوفہ، مکہ، مدینہ، بصرہ وغیرہ آزاد ہو گئیں۔ پوری دنیا میں انقلاب برپا ہوا، بہت سی قومیں آزاد ہوئیں۔ لوک مانیہ تلک جی نے کیا خوب کہا ہے: ’’حسینؑ دنیا کے پہلے ستیہ گرہی (سچائی و حق کےلئے تحریک چلانے والے) انسان ہیں‘‘حسین ؑ کی حق کے لئے چلائی جانے والی تحریک کے نظریہ اور طریقۂ کار کے نتیجہ میں لوگوں میں نیکیوں کے لئے آج بھی احساس زندہ ہے۔